حسن و جمال کے فطری اور ازلی طریقے قارئین! حسن و جمال اور فٹنس کے حوالے سے میں آج ایک انوکھا تجربہ بتاتا ہوں۔ میرے ایک کرم فرما دوران گفتگو کہنے لگے: ہماری دکان کے قریب لاہور کے ایک مشہور نہاری اور سری پائے کی دکان ہے۔ میں ایک بات بار بار محسوس کررہا ہوں‘ ان کے پاس پہاڑی ملازم زیادہ ہوتے ہیں ہر ملازم چند ماہ کے بعد معدے کی گیس‘ تبخیر ‘ہیپاٹائٹس‘ کمر کے درد یا پھر مثانہ کی گرمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ ملازم کبھی کبھی فارغ ہوکر میر ے پاس آبیٹھتے ہیں کیونکہ پڑوس میں میری دکان ہے۔ میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ آخر ہر ملازم کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پہلے پہل تو ہمیں پتہ نہ چلا لیکن مختلف لوگوں کے اور ملازموں کے تجربات کے بعد ہمارے اوپر یہ بات کھلی کہ دراصل رات دیر گئے ہم فارغ ہوتے ہیں اور جو کھانا بچتا ہے یعنی نہاری‘ سری پائے‘ حلیم وغیرہ۔۔۔ وہ ہم ڈٹ کر کھاتے ہیں اور پھر سکھ کا سانس لینے کے لیے صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں۔ بس اس میں موجود کیمیکل ‘مصالحہ جات یہ سب چیزیں اپنا ایک کام کرتی ہیں اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد یہ تکلیف شروع ہوجاتی ہے۔ قارئین! حسن ‘ صحت مصنوعی کریموں کا نام نہیں‘ لوشن ظاہری چیزوں کا نام نہیں ۔ہاں! میں ان سے سوفیصد انکار بھی نہیں کرتا لیکن حسن و جمال کا تعلق اندرونی غذاؤں احتیاطوں اور تدابیر کا نام ہے۔ آپ کو نسی غذا کھاتے ہیں‘ آپ کا طرز زندگی کیا ہے‘ آپ سارا دن کیا سوچتے ہیں؟ ویسے بھی ظاہری لوشن کریم اور کیمیکل ملے لیپ مناسب مقدار سے ہٹ کر اگر زیادہ ا ستعمال کیے جائیں تو ان کا جلد پر جو نقصان ہوتا ہے وہ تو اپنی جگہ لیکن ان کا مرد اور عورت کی جنسی زندگی پر بھی بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ بس اشارے کیلئے اتنا کافی ہے کہ ہر ماہر جلد اپنی ڈگری کے ساتھ امراض مخصوصہ ضرور لکھتا ہے۔ آپ نے کبھی نہیں سوچا کہ جلد کا تعلق جنس کے ساتھ اور ازدواجی زندگی کے ساتھ بہت زیادہ بلکہ بہت ہی زیادہ ہے۔ تو پھر کیوں آپ اپنی جلد کے پیچھے پڑےہوئے ہیں اور پھر ناکام ازدواجی زندگی کے رونے روتے ہیں۔ آئیے! اپنی غذاؤں کو اتنا خوبصورت بنائیں کہ ہم خوبصورت ہوجائیں‘ فطرت کو آواز دیں‘ قدرت کو پکاریں‘ زندگی کا وہ گوشہ جسے بھول کر ہم پریشان ہیں‘ واپس اگر آجائیں گے تو وہ زندگی پھر ہمارے پاس واپس آئے گی۔ یعنی ساری دنیا اس وقت کاٹن یعنی سوتی لباس کی طرف‘ ٹاٹ کے لباس اور فطری غذاؤں اور رہن سہن میں دلچسپی لے رہی ہے۔ میرا کوئٹہ کے ہوٹل سرینا (فائیوسٹار) میں جانا ہوا‘ اس کا ظاہری انداز ایسا تھا جیسے کوئٹہ کی گاؤں اور دیہات کی دیواریں‘ مٹی کا لیپ‘ مٹی اور بھوسے کا استعمال‘ ہلکی لائٹیں‘ مدھم روشنی‘ پرسکون ماحول‘ میں حیران ہوا۔۔۔ کہ چکاچوند روشنیوں سے نکل کر ہم پھر واپس ہلکی روشنیوں میں لوٹ آئے۔ بھاری ناشتوں سے نکل کر براؤن بریڈ اور جو کے دلیے کی طرف پلٹنا شروع ہوئے اور ایسی غذاؤں کو تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن میں چھان بوڑا ہو جن میں فائبر ہو۔ معلوم ہوا کہ فطرت حقیقت ہے اور حقیقت صحت اور تندرستی۔۔۔ اسی کو بھولے تھے واپس پلٹے تو فطرت نے اپنی آغوش میں لے کر ہمیں پھر سے تندرست کردیا۔ وٹامن سائنس چیخ و پکار میں لگی ہے کہ رنگ برنگی وٹامن کی گولیاں نہ کھاؤ‘ کچی سبزیاں اور پھلوں کی طرف آجاؤ تو پھر حسن و جمال مصنوعی چاہیے یا حقیقی۔۔۔ اگر حقیقی چاہیے تو حقیقی زندگی کی طرف آنا پڑے گا۔ میں پچھلے دنوں ایک ریسرچ پڑھ رہا تھا جو خواتین اپنا جسم جتنا زیادہ حتیٰ کہ چہرہ بھی ڈھانک کر رکھتی ہیں ہماری ہواؤں اور فضاؤں میں کیمیکل بھری آلودگیاں ان سے دور رہتی ہیں لہٰذا اگر وہ اپنی جلد کی کوئی بھی احتیاط نہ کریں تو ان کیلئے یہی احتیاط کافی ہے ان کا حسن و جمال ان کی خوبصورتی سدابہار رہتی ہے۔ آئیے! ہم اپنے حسن و جمال کو ان تدابیر کے ساتھ باقی رکھیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں